Skip to main content

قدرت اللہ شہاب (بیوروکریٹ، ادیب اور شاعر)

 قدرت اللہ شہاب 26 فروری 1917 ء کوگلگت میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق آرائیں خاندان سے تھا۔ آپ کے والد عبداللہ صاحب علی گڑھ کے گریجوایٹ اور ڈوگرہ راج میں گورنر گلگت رہ چکے تھے۔قدرت اللہ شہاب نے زیادہ تر تعلیم کشمیر میں حاصل کی۔ جہاں پر انہوں نے اُردو اور انگریزی زبانوں پر عبورحاصل کیا۔سولہ سال کی عمر میں آپ کا مضمون ریڈرز ڈائجسٹ میں شائع ہوا جس نے پوزیشن حاصل کی جو اس زمانے میں کسی بھی ہندوستانی مسلمان کے لئے قابل فخر تھا۔ بعد ازاں آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کی۔ آپ نے 1941 ء میں انڈین سول سروس کا مقابلہ کا امتحان دیا۔ اس دور میں دوسری جنگ ِ عظیم کے باعث برطانیہ نے مقابلے کا امتحان برصغیر میں ہی کروانے کا فیصلہ کیا تھا۔ امتحان کے متعلق شہاب اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں

جب میں مقابلے کا امتحان دینے دہلی گیا تو پہلے روزمٹکاف ہاؤس پہنچتے ہی میرادل بیٹھ گیا۔ برصغیر کے سارے صوبوں سے کوئی ساڑھے سات سو لڑکے امتحان دینے آئے تھے۔ ہر کسی کے سر پر کوئی نہ کوئی کلغی لہرا رہی تھی۔ کچھ یونیورسٹیوں کے ریکارڈ ہولڈر تھے۔ کچھ مشہور و معروف مقرر یا کھلاڑی تھے۔ کوئی آکسفورڈاورکیمبرج کے لہجے میں فرفر، فر فر انگریزی بول رہا تھا، کوئی شین، قاف سے درست اُردو کے موتی بکھیر رہا تھا۔ کسی کا ڈیل ڈول بارعب تھا۔ کسی کے لباس کی آرائش دیدہ زیب تھی۔ کچھ آپس میں ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ کچھ سنجیدہ بحث مباحثوں میں مصروف تھے۔ مٹکاف ہاؤس کے لان میں شائستہ، ذہین، فتین، خوش پوش، خوش گفتار، خوش رفتار نوجوانوں کے اس ہجوم میں میری کسی ایک سے بھی شناسائی نہ تھی۔ (شہاب نامہ)

۔ 1940ء میں جب قدرت اللہ شہاب نے آئی سی ایس کا متحان پاس کیا تو ان کے گروپ میں 30 افراد شامل تھے، جن میں سے 19 کا انتخاب لندن جبکہ 11 کا انڈیا میں ہوا تھا، اس گروپ میں 15 انگریز، 12 ہندو اور 3 مسلمان تھے، جن کی ٹریننگ کا کیمپ انڈیا کے علاقہ دہرہ دون میں کھولا گیا تھا۔یہاں پر ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد آپ کو صوبہ بہار میں تعیناتی کا حکم ملا تو ٹریننگ کے ڈائر یکٹر مسٹر پینل نے بہار کے چیف سیکرٹری کو آپ کے عادات و اطوار اور خداترسی کے باعث جو رپوٹ بھیجی تھی اس میں لکھا ہوا تھا کہ آپ حفیف الحرکات، ہائی سوسائٹی کے لئے ناموزوں، رذیلوں (عام عوام) میں خوش، آئی سی ایس کی روایات اور وقار کے لئے ناکافی، اہم ذمہ داریوں کے لئے نا اہل،مجموعی طور ہر انڈین سروس کے لئے غلط انتخاب، اگر ملازمت کے دو، تین سال بھی مکمل کر لیں تو اِس کی انتہائی خوش نصیبی اور برٹش انڈین گورنمنٹ کی انتہائی بد نصیبی ہو گی۔ 1943 ء کے قحط کے ایام میں قدرت اللہ شہاب نے رضا کارانہ طور پر کافی تگ و دو کے بعد اپنا تبادلہ بنگال میں کروا لیا اور نندی گرام میں بطور ِ مجسٹریٹ تعینات ہوئے۔ قحط سے متعلق آپ ایک واقعہ تحریر کرتے ہیں کہ راحیل خونڈکر نام کا ایک آدمی جھونپڑی کے دروازے میں بے حس و حرکت زندہ لاش بنا پڑا تھا، اس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو صاف نظر آ رہے تھے اور ایک گیدڑ اس کی پاؤں کی ایڑہی میں دانت گاڑے کچر کچر منہ مار رہا تھا، راحیل بھوک سے اس قدر بے حال ہو چکا تھاکہ اس میں اتنی طاقت نہ تھی کہ گیدڑ کی منہ سے اپنا پاؤں چھڑا دیتا۔تھوڑے فاصلے پر درد، کرب اور اذیت سے بھرے اس نایاب منظر کو فرینڈز ایمبولینس سروس کا ایک فوٹو گرافر پورے انہماک سے گوشت پوست کی بے حرکت مورتی بنا کیمرہ کی آنکھ میں محفوظ کر رہا تھا۔ اس نفسا نفسی کے عالم اور قیامتِ صغریٰ میں بھی کچھ لوگ حوس کے پجاری بنے ہوئے تھے۔ قدرت اللہ شہاب کہتے ہیں کہ تملوک میں مختلف مقامات پر حکومت نے غریب خانے کھول رکھے تھے جہاں مَردوں کو تو کوئی خاص منہ نہیں لگاتا تھا مگر جوان خواتین کی خوب آؤ بھگت سپر وائزر سے لے کر مہتر تک سب اپنی اپنی توفیق کے مطابق کرتے تھے،" غریب خانہ ہو یا راحیل خونڈکر کی جھونپڑی، بھوک کی منڈی میں جسم، جاں اور جنس کا ایک ہی ریٹ تھا۔۔۔"(شہاب نامہ)، سیلاب سے گھرے ہوئے ایک گودام میں آٹھ من خوردنی اجناس بھری پڑی تھی جسے جنگ عظیم دوم میں مصروف ِ عمل سپاہیوں کے لئے رکھا گیا تھا۔ قدرت اللہ شہاب نے اس غلے کے گودام کا تالہ توڑ کر اسے سیلاب زدہ دیہات کے مستحق لوگوں میں تقسیم کروادیا جس کے بعد انہیں بالعموم ہندؤں اور بالخصوص ہندو مہا سبھا کے ڈاکٹر شیام پرشاد مُکر جی کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی نے بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ 

 قدرت اللہ شہاب نے اپنی آنکھوں سے پاکستان بنتے دیکھا۔ پاکستان کے معرض ِ وجود میں آنے کے بعد آپ ہجرت کر کے کراچی آ گئے اور وزارتِ تجارت میں انڈر سیکرٹری تعینات ہوئے۔ بعد ازاں چیف سیکرٹری کشمیر بنے۔ پاکستان کو بھارت کی جانب سے جس طرح اول تو بننے سے روکنے اور بعد ازاں دغا بازی اور طرح طرح کے پینترے آزما کر دوبارے انڈیا کے ساتھ ملنے پر مجبور کیا جاتا رہا وہ اپنی مثال آپ ہے، پھر جگہ جگہ مسلمانوں کا قتل ِ عام اور خواتین کی عصمت دری جیسے واقعات رونما ہوتے تھے جن کے چشم دید گواہ قدرت اللہ شہاب خود ہیں اور اس کے بیشتر واقعات کو اپنی خود نوشت میں جا بجا بیان بھی کیا ہے، وہیں دوسری طرف پاکستان کے پاس مالی وسائل کی بہت زیادہ کمی تھی۔ اِس موقع پر قدرت اللہ شہاب کہتے ہیں کہ میر پور کا پرانا شہر جنگ کے دوران ملبے کا ڈھیر بن گیا تھا۔ ایک روز میں ایک مقامی افسر کو جیپ میں بٹھائے گھوم رہا تھا کہ میری نظر ایک مفلوک الحال بوڑھے اور اس کی بیوی پر پڑی جو گدھے کو ہانکتے آہستہ آہستہ چلتے نظر آئے۔ ہمیں روک کر پوچھاکہ بیت المال (سرکاری خزانہ) کس طرف ہے؟ ہمارے استفسار پر بوڑھا سادگی سے بولا " میں نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر میر پور شہر کے ملبے کو کرید کرید کر سونے اور چاندی کے زیورات کی دو بوریاں جمع کی ہیں۔ اب انہیں اس کھوتی پر لاد کر بیت المال میں جمع کروانے جا رہے ہیں "۔ یہ واقعہ اس غربت کے عالم میں بھی نوزائیدہ مملکت کے ساتھ سادہ لوح عوام کی وفاداری اور بے لوث محبت کا منہ بولتا ثبوت اور تاریخ کے پنوں میں سنہری حروف سے لکھا جانے کے قابل ہے۔ 

 کشمیر میں جنگ بندی کے بعد آپ کا تبادلہ کراچی کر کے آپ کو وزارتِ اطلاعات و نشریات میں فارن پبلسٹی کا انچارج ڈپٹی سیکرٹری لگا دیا گیا۔ آپ ضلع جھنگ کے ڈپٹی کمشنر اور بعد ازاں بطور ڈائریکٹر انڈسٹریز پنجاب اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ 

گورنر جنرل غلام محمد کے دور میں قدرت اللہ شہاب کو پرنسپل سیکرٹری لگا دیا گیا۔ اس عہدے پر وہ میجر جنرل اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کے دور تک رہے۔بعد ازاں آپ کو سیکرٹری ایجوکیشن تعینات کیا گیا۔ 

قدرت اللہ شہاب ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر بھی رہے۔ اکتوبر 1968ء میں یونیسکو 

(United Nation's Education, Science and Culture Organization) 

کی جنرل کانفرنس میں پاکستانی وفد کے سربراہ کے طور پر شرکت کی۔ اسی کانفرنس کے دوران ایگزیکٹیو بورڈ کا الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کر کے چھ برس کے لئے ممبر منتخب ہوئے۔ فلسطینی مہاجرین کے لئے یونیسکو نے اپنے خرچ پر یروشلم، مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر سکول کھول رکھے تھے جن میں یونیسکو کا منظور شدہ نصاب پڑھایا جاتا تھا۔ اسرائیل نے قبضہ کر کے ان سکولوں سے یونیسکو کے نصاب کو خارج کر دیا اور اسلام، سیرت مبارکہ اور عرب تاریخ اور ثقافت کے خلاف انتہائی گمراہ کن، شرمناک اور غلیظ پروپیگنڈہ شروع کر دیا تو خفیہ مہمات کے لئے قدرت اللہ شہاب بطورِ بزنس مین پیرس سے اسرائیل کے لئے روانہ ہوئے جس کے بارے میں شہاب ؔ خود بیان کرتے ہیں کہ ایسی خونی مہمات سے واپسی کے امکانات پچاس فیصد ہوتا تھا مگر قدرت اللہ شہاب نے یہ مہم کامیابی سے سر کی اورواپس آ کر حاصل کردہ شواہد کی روشنی میں اپنی رپورٹ پیش کی۔جس کے بل بوتے پر ڈائریکٹر جنرل نے ایسے اقدامات کئے کہ یونیسکو کے قائم کردہ سکولوں میں عربوں کا منظور کردہ درسی نصاب از سر نو رائج ہو گیا۔ یہ قدرت اللہ شہاب کی ایک عظیم خدمت تھی۔ اپنی سروس کے دوران متعدد بار قدرت اللہ شہاب نے استعفےٰ پیش کئے جو بہر حال منظورنہ ہو سکے۔آپ نے آخری استعفیٰ جنرل یحییٰ خان کے دور میں پیش کیا جو بلاآخرایک برس کی کشا کشی اور ضدا ضدی کے بعد منظور ہو گیا۔


 قدرت اللہ شہاب نے زندگی میں کئی موڑ دیکھے۔ آپ نے قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان اور سردار عبد الرب نشتر جیسی شخصیات سے براہ راست ملاقات شرف حاصل کیا۔پھر ایک فوجی آمر کو جمہوریت کی بساط لپیٹ کر کرسی اقتدار پر متمکن ہوتے اور پھر اس کرسی سے اُتر کر دوسرے آمر کو اس کرسی پر بٹھانے تک کا سفر دیکھا اور انتظامیہ میں شامل بھی رہے۔ 

 آپ کی شادی عفت شہاب سے ہوئی جو پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھیں۔ آپ کا اکلوتا بیٹا ثاقب شہاب بھی ایک ڈاکٹر ہے۔ قدرت اللہ شہاب کی والدہ کریمہ بی بی کی وفات 2 مارچ 1942ء کو جناح ہسپتال کراچی ہوئی جس پر آپ نے " ماں جی " لکھی۔ ڈاکٹر عفت شہاب 18 جون 1974ء کو انتقال کر گئیں جس پر شہاب نے تین نظمیں بعنوان "نیا گھر''، "موسم موسم کا راگ "اور "ایک دن "لکھ ڈالیں۔ اپنی والدہ اور ڈاکٹر عفت شہاب دونوں کی وفات پر قدرت اللہ شہاب نہات رنجیدہ ہوئے۔

 قدرت اللہ شہاب ایک بیورو کریٹ کے ساتھ ساتھ نہایت ہی اعلیٰ درجے کا ادیب اورشاعر بھی تھا۔ آپ کی شخصیت کو پہچان اور دوام بخشنے والی تحریر '' شہاب نامہ " ہے جو قدرت اللہ شہاب کے بیوروکریسی کے سفرمیں آنے والے نشیب و فراز کا احاطہ کرتی ہے (مافوق الفطرت طاقت کا تذکرہ قدرت اللہ شہاب نے کتاب کے آخری باب "چھوٹا منہ بڑی بات " میں " نائنٹی " (Ninety)نامی قوت سے کیا ہے) ۔یہ کتاب درحقیقت قدرت اللہ شہاب نے معروف ادیب ابن انشاء کے کہنے پر ضابطہ تحریر میں لائی جو ایک خود نوشت ہے۔ یہ بھرپور زندگی کے ہنسنے ہنسانے، رونے رلانے والے واقعات کا حیرت ناک اور عبرت ناک مرقع ہے۔ ماضی اور حال کے آئینے میں پاکستان کے مستقبل کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ کتاب سربراہوں کی کج رویوں، سیاست دانوں کی ہیرا پھیریوں، نوکرشاہی کی جی حضوریوں، بیوروکریٹس کی من مانیوں، انتظامیہ کی دھاندلیوں اور معاشرے کی بے حسی کی بے لاگ داستان ہے۔ انگریز کا راج، ہندو کا سماج، سکھوں کا مزاج، مسلمانوں کا ٹمٹماتا ہوا چراغ، داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کے لیل و نہار، بااعتماد اور ناقابل اعتماد " دوست " ممالک کے نقش و نگار، کشکول گدائی پر انحصار، محلاتی سازشو ں اور آمریت کا جال، اقدار کا زوال، مارشل لاؤں کا جنجال، جہادِ کشمیر اور جزوی آزادی، یو -این -او کی قرادادوں کی بے حرمتی اور بے ثباتی، مسجد اقصیٰ کی ایک رات، دینِ مبین کی تجلیات، قلب و نظر کے مشاہدات، تزکیہ نفس کے معاملات اور کتاب کے آخر میں "پاکستان کے بارے میں چند اندازے "اور اسلام کے فیوض و برکات اور ذاتی مشاہدات شامل کر کے مصنف نے اس خود نوشت کو نئی جہت عطا کر دی ہے۔ یہ مکمل کتاب موصوف کی وفات کے بعد 1986 ء میں شائع ہو کر منظر ِ عام پر آئی۔ قدرت اللہ شہاب کی دیگر تصانیف میں نفسانے، سرخ فیتہ، یا خدا اور ماں جی شامل ہیں۔شہاب نامہ کے آخری باب چھوٹا منہ بڑی بات کو دیکھتے ہوئے قدرت اللہ شہاب کے ادیب دوست ممتاز مفتی نے الکھ نگری لکھی جس میں موصوف کی روحانی زندگی کا مفصل احاطہ کیا گیا ہے۔ اس تصنیف کے بارے میں ممتاز مفتی اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر کیو یو شہاب، شہاب نامہ میں آخری باب کا اضافہ نہ کرتے تو الکھ نگری کبھی وجود میں نہ آتی۔ بانو قدسیہ نے قدرت اللہ شہاب کے متعلق ' مردِ ابریشم ' نامی تصنیف تخلیق کی۔ قدرت اللہ شہاب کو پاکستان رائٹرز گلڈ نامی ادارے کے بانیان میں شمار کیا جاتا ہے اور موصوف1959ء میں اس تنظیم کے پہلے سیکرٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں۔ 

  قدرت اللہ شہاب کا انتقال 24جولائی 1986ء میں ہوا اور آپ ہمیشہ کے لئے اسلام آباد کے ایک شہرِ خموشاں کے مکین ہو گئے۔

Comments

Popular posts from this blog

05 Most Visited Cities of the World

05 Most Visited Cities of the World People used to visit the cities for the sake of leisure as well as for job. According to the data and statistics provided by different platforms and institutions the following cities are top most visited. Tourists prefer to visit the cities which has diversity in culture, attraction in environment and peace in the city. From slow and charming to fast-clipped and polished, the five most visited cities of world have their own distinct pace and color. These cities are given here. 1. Bangkok Country: Thailand | Total International Visitors: 22.78 million | Last Year’s Rank: 1 Bangkok is the capital of Thailand. It is top among most visited cities in the world hosts to a huge international visitors i.e 22 millions! Bouquet in the noise of tuk-tuks and consistent liveliness is the city of Bangkok, where map-less exploration always leads discover fun. Here, people enjoy the usual city comforts of megamalls and modern places. It also has a collection of man

یومِ اساتذہ تقریب، گورنمنٹ کالج ایبٹ آباد

ایبٹ آباد (اُسامہ اسحاق سواتی) پاکستان اسٹڈیز سوسائٹی کے زیرِ اہتمام گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ایبٹ آباد میں مختصر مگر پروقار یوم اساتذہ پروگرام کا اہتمام، پروگرام کے آرگنائزرز کا میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ یوں تو ہر دن ہی اساتذہ کے نام ہوتا ہے مگر اس دن (5 اکتوبر) کو اساتذہ کے لیے مخصوص کر کے پروگرام کے انعقاد کا مقصد اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرنا ہے، اس موقع پر پاکستان اسٹڈیز سوسائٹی کے صدر سردار عادل اورنگزیب کا کہنا تھا اساتذہ ہمارے روحانی والدین ہیں، یہ وہ ہستیاں ہیں جو خود بادشاہ نہیں ہوتے مگر اپنے طلبہ کو بادشاہ بنا کر انہیں آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتے ہیں، ہمارے اوپر ان کی قدر اور عزت ہر حال میں لازم ہے، پروگرام کے دوران کیک کاٹا گیا اور طلبہ کی جانب سے پرنسپل گورنمنٹ کالج ایبٹ آباد پروفیسر ممتاز حیدر اور دیگر اساتذہ میں تحائف بھی تقسیم کیے گئے۔